اس عظیم جرنیلی سڑک پر سفر کرتے ہوئے جب آپ دینہ پہنچے تو کچھ فاصلے پر جنوب مشرق میں ایک قلعہ کے باقیات دکھائے دیں گے یہ عظیم قلعہ مغربی پاکستان میں شیرشاہ سوری کے زمانے میں بچ جانے والی عمارت میں سے اہم یے۔
١٥٣٩ میں نصرالدین ہمایوں ہندوستن کے تخت پر سند نشین ہوا۔ اسی سال ایک مہم جو شیرشاہ سوری کے نام سے آگے آیا کس نے ہمایوں سے تخت چھین کر سوری خاندان کی ہکومت کا آغاز کیا۔ اس کی حکومت مختصر او بینظیر تھی اس نے زندگی کے مختصر حصے میں بڑی کامیابی حاصل کی شیرشاہ سوری نے دیلی اور پنجاب میں بہت سے اہم تعمیراتی کام کئے لیکن بدقسمتی سے زیادہ عرصہ حکومت نہ کر سکا اور جلد ہی عفات پا گیا اور سہسرام بہار میں دفن ہوا۔
کچھ حد تک ہجرت کر جانے والوں کو واپس بلانے کے لیے اور کچھ مہاجروں کو اپنی طاقت سے مدد کرنےوالے ہنگامہ خیز گکھڑوں کو قابوں کرنے کیلیے سلسلہ کوہ نمک کے شمال میں شیر شاہ سوری نے روہتاس کا قلعہ تعمیر کیا اور اس میں بارہ سو افراد کی ایک محافظ فوج ایک ساتھی جنگجوں خواص خان کے ماتحت تعینات کر دی اس قلعہ کے علاوہ مغربی بہار میں ایک اور قلعہ روہتاس موجود تھا جو ١٥٣٩ میں مقامی ہندو حکمرانوں پر شیرشاہ سوری کی فتح کا عظیم نشان تھا۔
جہلم کے قریب اس قلعہ کی عظیم تعمیر کے لیے جگہ جہلم سے بارہ میل شمال مغرب میں یہاں ندی پر پر واقعہ ایک بلند پہاڑی چنی گئ یہ گکھڑوں کو خوفزدہ کرنے کیلیے قابل سے لاہور آنے والے راستے پر واقعہ تھا۔
گکھڑ مغلوں کے دوست تھے کس کی وجہ سے قلعہ کی تعمیر کو روکنے کیلیے ہر طرح کی کوششیں کرتے جیسا کے معماروں کا بائکاٹ قابل ذکر ہے یہ طریکہ کسی کو کام پر آنے سے روکنے کیلیے بہت مفید تھا۔ شیرشاہ سوری کو ایک مختصر وقت کے لیے ایک اشرفی(ایک سونے کا مہر) کے عوض کام کرنے کی پیشکش کرنا پڑی١٥٤٣ء میں ہر لائے گئے پتھر کے عوض پر کام ان دنوں کے چار ملین روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ جب ھکھڑوں کو احساس ہوا کہ ان کی کوششوں کے باوجود قلعہ تعمیر ہوگیا تو انہوں نے ایک کمزور انداز میں اس قلعہ کا ہمسر سلطان پور کے قریب تعمیر کر کہ جواب دیا اور آج اس کی ایک غیر مہزب اور ناہموار معارت ہی بچی ہے۔ عظیم جرنیلی سڑک شیرشاہ سوری نے ہی تعمیر کی لیکن اس تعمیر سے پہلے ہی روہتاس پشاور جانے والی سڑک پر موجود تھا۔ ان پرانی سڑکوں کے آثار پر پہاڑی علاقوں کے درمیان میں سلسلہ کوہ نمک شمال اور جنوب میں میدانوں تک ہیں یہ آثار مغل سراے کے باقیت ہا قلعہ کے شمال میں ایک میل کے فاصلے پر واقع ایک سراے میں موجود ہیں اگر یہ آثار تاریخ حادثات کا شکار نہ ہو چکے ہوتے تو یہ برصغیر کی مغربی فوجی چوکی کی حیثیت سے اہم کردار ادا کر سکتی تھیں کبھی یہ اس کی شہرت کی ایک بڑی بات یہ ہے کہ اس نے شہنشاہ جہانگیر کو جب وہ وہاں پر قیام پزیر ہوا تھا کچھ مخصوص قسم تیر مہیا کیے تھے یور جہانگیر نے کئ با وہں قیام کیا تھا۔ شیرشاہ سوری کی وفات کے بعد ہمایوں اگلے پندرہ برس تک ہکومت کرنے کے لیے جلد واپس آگیا مغل حکومت جلد ہی ایران سے آسام تک پھیل گئ اور روہتاس ناقا بل استعمال ہو گیا۔
عمارتی خصوصیات
قلعہ کا احطہ تقریبََا آڑائی میل ہے اور ایک بیرونی دیوار تقریبََا آدھا میل لمبی ہے۔ دیواریں اپنی بنیاد پر تیس فٹ چوڑی اور تیس سے پچاس فٹ بلند ہیں اس میں ارسٹھ برج جہاں بارہ گزیں ہیں اور دیواروں میں بندوقوں اور تیروں کے لیے روزن اور یہاں توپوں کے لیے سوراخ ہیں منڈیر پر راستے کے نزدیک خفیہ ٹھکانے ہیں جن میں پگلا ہوا سیسہ اور ابلتہ ہوا پانی حملہ آوراں پر انڈیلا جا سکتا تھا قلعہ کا کبھی بھی محاصرہ نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ان میں سے کچھ دروازے اندر پہنچنے کیلیے تعمیر کیے کئے تھے اب اس کے مختلف حصے کھنڈرات بن چکے ہیں خاص طور پر شمال کی طرف سے جہاں دیوارں کا ایک بڑا حصہ گر چکا ہے دوسری جگہوں پر نرم سرخ پتھروں کی بنیادیں فرسودہ ہو چکی ہیں دیوارون کو صرف عمدہ تعمیراتی سامان کے سہارے چھوڑ دیا گیا جس سے وہ تعمیر کی گئ ہیں شمال مغربی اور مشرقی گزرگاہ کے ساتھ مستطیل نما دیزائن کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے یہ گزرگاہیں بیس فٹ اونچی اور محرابی ہیں اور ابھی تک موجود ہیں جب کے ان کے بڑے بڑے حصے کافی عتصے سے غائب ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک بہت سے راستے استعمال کیلیے امنائے ہوے ہیں سب سے بہتر گزرگاہ سہیل دروازہ ہے جو کہ ستر فٹ بلند اور ٹلہ جوگیاں کی سمت ہے اس دروازے کی بیرونی دروازوں پر چھوٹے چھوٹے کمرے موجود ہیں یہ ساری گزرگاہ مکمل ہے جو استعمال ہونے کے باوجود قائم ہے اس کا بالائی حصہ اب ایک میوزم ہے دیوار پر مختلف قسم کے نقش و نگار ہیں جو اتنے اہم نہیں ہیں۔ سہیل دروازے کے علاوہ گزرگاہ خواص خوانی گیٹ ہے یہاں جہلم سے قلعہ میں راستہ داخل ہوتا ہے قلعہ کا شمالی حصہ ایک اندرونی دیوار کے ذریعے سارے قلعہ سے علحیدہ ہے بالکل اس طرح جیسا کہ بیرونی جانب سے جو ایک شہر کی پناہ کی قسم ہے اس کے ساتھ ایک شھوٹی سی بلند عمارت بے محل شباہت کی ہے کہا جاتا ہے کہ اکبر کے زمانے میں راجہ مان سنگھ نے بنائی تھی قلعہ میں دو باؤلیاں شامل ہیں۔ باؤلی کی سیڑھیوں کے ساتھ اس زمانے کی چھوٹی مسجد ہے۔
یہاں قابل بیان تعمیراتی خدوخال گزرگاہیں ہیں یہ عمدہ ماہرین تعمیرات سے تعمیر کروائئ گئیں ہیں اور محرابی طور پر جن میں لمبے محرابی گو شے رکھے گئے ہیں جو کہ کھڑکیوں کے پہلوں میں واقع ہیں کھڑکیاں ہندوانہ قوسین پر تعمیر کی گئ ہیں تمام مشترکہ تعمیر میں مضبوطی اور شان کے ساتھ ایک شائستگی ہے جو کہ پٹھان فن تعمیر میں مہارت کو واضح کرتی ہے ایک ڈیڑھ صدی قبل تک قلعہ کے بیرونی جانب اس وقت رہاشی عمارات تعمیر نہیں کی گئ تھیں۔ تاہم قلعہ کے شمالی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں بن گیا۔١٩٤٧ کی پریشانیوں میں سے اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گیا اور اب ملبے کا ڈھیر بنا پڑا ہے۔ دیواریں حفاظت کے نقطہ نظر سے ایک بہترین حالت میں ہیں وہ متوازی ہونے والی متعدد سیڑیوں کے ساتھ بلند ہوتی ہیں جن کے زریعے افواج مختصر وقت میں ایک خطر ناک مقام سے دوسری جگہ پہنچ سکتی تھیں دیواروں کا بیرونی حصہ مختلف جگہوں سے ٹوٹ چکا ہے۔
روہتاس کا بہترین نظارہ دریائے کیہان کی شمال جانب سے کیا جا سکتا ہے آج روہتاس ایک لمبی سیاہ رنگ کی دیواروں کی لکیر کی طرح دکھائ دیتا ہے جو کہ زرد رنگ کے سرخ پتھر کے مخالف سمت میں کھڑی ہیں جس کے پاس قدیم شاہراہ گزرتی ہے اس مقام پر وسیع انداز میں رقم اور افرادی قوت خرچ کی گئ ہے اور قلعہ کی عمارت وسائل کے ناقابل یقین خرچ کی غیر معمولی مثال پیش کرتی ہے جس کا انسان نا چاہتے ہوئے تاریخ کے ایک حصے تک خرچ اٹھا جو کے جلد ہی فوجی اعتنار سے بے فائدہ ثابت ہو گیا اور بالکل ایسا ہی آج تک ہو رہا ہے جیسا کے اسی مضبوط قلعہ سے فائدہ کی توقع تھیں انہیں حاصل نہ ہوا شیرشاہ سوری کی وفات کے بعد جب ہمایوں جلاوطنی سے واپس آیا تو روہتاس کا گورنر قلعہ تا تارخان موسی قلعہ کی کافی مضبوطی کے باوجود اس کا مقابلہ نہ کر سکااور بھاگ گیا۔