دانگلی

سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتا اور تنگ گھاٹیوں میں شور مچاتا دریائے جہلم دانگلی پہنچ کر اپنا دامن پھیلاتا اور چپ سادھ لیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ویری ناگ سے دانگلی کے پہاڑی سفر نے اس تھکا دیا ہے اور پڑاؤ کی تیاری میں ہے۔

اسلام آباد اور میر پور کے درمیان واقع دانگلی کے دامن پر کئی صدیاں نقش ہیں۔ یہ بہت سے قلعوں میں گھرا ہوا ہے۔قلعہ رام کوٹ (تغلو)، قلعہ منگلا، قلعہ سنگنی ،قلعہ سلطان پور۔اس کے اطراف میں بھی بہت سی تاریخی مقامات ہیں۔ ان میں قدیم کابل لاہور شاہراہ ،اسی شاہراہ کے دھانے کرونٹہ میں جلال خان کا تاریخی تالاب ، کرونٹہ اور کوٹ دھمیک کے درمیان شہاب الدین غوری کی جائے شہادت۔

جہلم اور کوہالہ کے بیچ یہ پتن صدیوں سے مصروف گزرگاہ چلی آ رہی ہے۔ انگریز دور میں یہاں فیری میسر تھی۔ پھر معلق پل بنا۔ 2011 میں کنکریٹ کے پل کا افتتاح ہوا۔ سنگِ افتتاح پر ”دھان گلی پل” لکھا دیکھ کر، آئینِ اکبری کا دان گری اور پنڈی گزئٹئیر کا ڈینگلی اور دائرہ معارف اسلامیہ کا ڈنکلی یاد آ گیا۔چونکہ ہم دنی چند کے قلم کے قتیل ہیں، اس لیے تبرکاً دانگلی لکھیں گے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سلطان مقرب خان نے برج ناتھ کو مختلف دیہات کے ناموں کی وجہ تسمیہ لکھنے کو کہا۔کتاب ”وجہ تسمیہ موضعات پرگنہ دانگلی پھروالہ” کے نام سے مرتب ہوئی لیکن اس میں دانگلی کی وجہ تسمیہ پر بات نہیں کی گئی ۔یہ بھاری پتھر ان کے والد دنی چند پہلے ہی اٹھا چکے تھے۔ ”ڈین دیو نے اس علاقے میں دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔اس سے نجات کے لیے راجر خان نے غار کے سب راستے بند کر دیے اور اس کے اطراف میں آگ لگا دی۔ دیو نے گلی سے راستہ نکال لیا اور یوں یہ علاقہ ڈین گلی کے نام سے مشہور ہو گیا۔”

دنی چند نے اپنی کتاب کیگوہر نامہ میں دانگلی کو پراسراریت اور عظمت عطا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا۔ کتاب میں پوٹھوہار کی جو واحد وجہ تسمیہ تخلیق کی گئی ہے وہ بھی دانگلی سے جڑی ہوئی ہے۔ شہاب الدین غوری کے تعاقب میں جب پرتھوی راج چوہان دانگلی آیا تو اس نے یہاں ہر طرف پھولوں کو دیکھ کر پوٹ ہار کہا اور یوں یہ علاقہ پوٹھوہار کے نام سے مشہور ہو گیا۔

اس جگہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ماضی میں گیان دھیان کے لیے منتخب جگہوں میں سے ایک ہو گی۔تاریخ اس عمل کی تھوڑی بہت تائید بھی کرتی ہے غزن سنگھ کی کتاب ہسٹری آف سکھ ریلجن ( صفحہ انیس)کے مطابق گرو نانک کے ایک ساتھی بالا دان گلی چلے آئے تھے اور ان کی سمادھی قیام پاکستان سے پہلے تک موجود تھی۔۔ہسٹری آف کہوٹہ میں جوہد سنگھ چوہدری نے لکھا ہے کہ کشان سنگھ نے دانگلی روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ لیاتھا۔ انہوں نے بھی یہ سمادھی خود دیکھی۔

دانگلی ڈڈیال (اندرہل) اور کلر سیداں کا سنگم ہے۔پل پار ڈڈیال (انڈر ہل)کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ اہل ڈڈیال جن کے اجداد کی سنہری نشانیوں سے منگلا کے نیلے پانیوں میں آب و تاب ہے،خود بھی چمک اٹھے ہیں۔

پل پار سے علاقے کا نظارہ کیا تو خشک، مٹیالا، پتھریلا اور گرم۔۔۔ میرے من میں بسا کشمیر دھندلا سا گیا۔۔۔ میرے ہم سفر عابد وحید کہنے لگے کہ آزاد پتن، ہلاڑ اور دانگلی کو فردوسِ بریں سے وہی نسبت ہے جو مور کو اپنے پاؤں سے ہوتی ہے۔

اس پل پر ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے۔ لیکن سنتالیس میں سامراج نے ایسی دراڑ ڈالی کہ اس کے بعد کوئی کوشش اسے پاٹنے کی کارگر نہیں ہو سکی۔

پل کے نیچے کشتیاں کھڑی ہیں۔ انگریزوں نے عوام کی سہولت کے لیے فیری سروس بھی مہیا کی ہوئی تھی۔پنڈی گزئیٹیر کوہالہ سے دانگلی تک دریا کے ساتھ ساتھ بالز روڈ کی نشان دہی بھی کرتا ہے جو اب بے نشان ہو چکا ہے۔ کیگوہر نامہ میں دانگلی سے سلطان پور تک ایک ایسے ہی راستے کی نشان دہی ہے جو زیرِ آب آنے سے پہلے ہی مٹ چکا تھا۔ 1152 میں راجر خان کا آباد کردہ دانگلی کئی مرتبہ برباد ہوا۔ آخری تباہی کی ایک گواہی انگریز سیاح ولیم مورکرافٹ کے سفر نامے سے ملتی ہے جس نے 1922 میں دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ کشمیر کا سفر کیا اور دان گلی کے وسیع کھنڈرات کا مشاہدہ کیا جن میں اسے کسی تعمیراتی دلکشی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔

گکھڑ محمود غزنوی سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک شمال سے آنے والے حملہ آوروں کے حلیف رہے۔ لاہور کے آخری غزنوی گورنر خسرو خان کی طرف سے سیالکوٹ میں غوری کا مقابلہ کیا۔ 1205 میں سلطان شہاب الدین غوری نے ان کے علاقے چائنہ، بنیر کو تباہ کر دیا۔گکھڑ دانگلی میں آبسے۔لیکن خوش خیال دنی چند لکھتا ہے کہ راجر نے باز تیتر کے پیچھے چھوڑا لیکن تیتر باز کے چنگل سے چھوٹ گیا۔ یہاں کے تیتروں کی تیزی دیکھ کر راجر نے یہیں اپنا مستقر بنانے کا فیصلہ کیا۔ کک، کالی اور کیری کو مار کر دان گلی ہتھیا لی۔

مغلوں سے عہد نبھانے کے لیے کامران مرزا سے بد عہدی گوارا کر لی۔ ہمایوں مرزا کو اقتدار لوٹانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔یہیں دانگلی میں ہمایوں نے سلطان سارنگ سے مدد کے لیے رابطہ کیا۔سوریوں سے مقابلہ کرتے ہوئے سلطان سارنگ خان نے سولہ بیٹے قربان کر دیے۔

ہمایوں کی وفات کے بعد دانگلی کئی سال تک افراتفری کا شکار رہا۔ کئی سال بعد اکبر اعظم کے ہاتھوں اس کے مقدر جاگے۔ اسےصوبہ لاہور کے سندھ ساگر سرکار کا پرگنہ (تحصیل) بنا دیا گیا ۔ جو 454 موضعات پر مشتمل تھا اور اسے جلال خان کے حوالے کیا گیا۔

مغل دور میں اس کی دائیں طرف ضلع لاہور کے سندھ ساگر سرکار اور بائیں طرف صوبہ کابل کی کشمیر سرکار کا حصہ تھی۔دانگلی کوئی معمولی پرگنہ نہیں تھا۔ یہ 445 دیہات پر مشتمل تھا۔اس کی سالانہ آمدن کافی زیادہ تھی۔ کابل اور پشاور کےانتظامی اخراجات گجرات، سیالکوٹ، پسروراور احمد آباد کے ساتھ ساتھ دانگلی بھی پورا کرتا تھا

کلر سیداں کی ہمواریوں، ہریالیوں اور وسعتوں سے ہوتا، اترائیاں، چڑھائیاں اور کس کراس کرتا دانگلی پہنچ گیا۔ بلندی پر واقع دانگلی کے پاؤں میں جہلم کا پرسکوت پانی ہے۔

دانگلی کبھی گکھڑ سٹیٹ کے پہاڑی حصے کا سرِ آغاز تھا جو پھروالہ تک پھیلا ہوا تھا۔ انگریز آئے تو تحصیل کہوٹہ کی حدود دانگلی کے پانیوں سے پھوفندی ( کوٹلی ستیاں) کی چوٹیوں کے درمیان مقرر ہوئی۔ اب دان گلی تحصیل کلر سیداں کے اہم تفریحی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ ویسے پانی اور پہاڑیوں میں گھرا دانگلی اتنی دلکش جگہ نہیں ہے۔ یہاں کی زمین پتھریلی اور غیر ہموار، پہاڑ روکھے اور بے حیات، سبزہ اور پانی چمک اور تازگی سے عاری ہے۔ لیکن جغرافیائی حوالے سے دانگلی کا محل وقوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مری کہوٹہ کے پہاڑی سلسلے کا سرِآغاز ہے۔ کشمیر کا ایک ایک اہم داخلی راستہ ہے۔سنگلاخ پہاڑ اور دریا اسے مضبوط دفاعی حصار بناتے ہیں۔

سکندر کے حملے کے وقت یہ علاقہ پونچھ کے راجہ ابھیسارس کی حکمرانی میں تھا۔ جس نے سکندر کو افرادی قوت اور ہاتھی فراہم کیے۔ دی اینشینٹ جیوگرافی آف انڈیا میں کننگھم نے ہیون تسانگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ساتویں صدی میں یہ علاقہ کشمیر کا حصہ تھا۔ مسلم حملہ آوروں کے وقت یہ علاقہ ہندو شاہیہ کے ماتحت تھا۔ جس کا مرکز ہنڈ پتن (صوابی) تھا۔ پھروالہ، منگلا، لوہ کوٹ، نندنہ، باکڑہ، کافر کوٹ، بل کوٹ وغیرہ قلعوں کی چین تھی۔ انہی میں سے ایک دان گلی تھا جو ہاتھیوں کا بیلا تھا۔ پھر شیر بھی پلنے لگے۔ شیر شاہ سوری جب سارنگ خان سے تعاون کا طلب گار ہوا تو جواباً شیر کے بچے روانہ کیے گئے۔

لیکن اب اس کے ماضی سے کوئی آشنا نہیں۔ میں دانگلی پل سے تھوڑا پہلے شاہ خاکی میں قلعے کا پوچھتا ہی رہ گیا۔ کسی کو کسی قلعے اور رانی منگو کی خبر ہی نہیں۔ پتا چلے بھی تو کیسے کہ ماضی کی ہر نشانی خاک ہو گئی ہے، شا خاک۔

اگر کچھ بچا ہے تو دلیر پوٹھوہارنی رانی منگو کے محل کا معمولی حصہ ہے۔ وہ بھی اجاڑ، ویران اور تباہ حال ۔۔۔!! بھیکڑ، کیکر، پھلائی، بھنگ اور دیگر جھاڑ جھنکار نے اس پر مکمل قبضہ جمایا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر مکئی کی فصل نے نکال دی ہے۔ رانی منگو سے دھیان رضیہ سلطان کی طرف جاتا ہے۔ جس نے اقتدار سنبھالتے ہی مردانہ لباس پہنا اور گھوڑے کی زین کو تخت جانا۔ اس علاقے کی دیگر شجاع خواتین میں رانی منگلا کا قلعہ اور شہر ہے۔کشمیر کی رانی کوٹہ نے اندر کوٹ میں پانچ ماہ حکمرانی کی۔

جنجوعہ رانی منگو کی شادی گھکڑ سردار اللہ قلی خان سے ہوئی۔ سولہ سو اکیاسی میں مراد قلی خان جب درہ خیبر میں وفات پا گئے تو ان کے بیٹے اللہ قلی خان نے اقتدار میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ان کی جگہ ان کی بیگم رانی بنیں۔ رائل ایشاٹک سوسائٹی (والیم چالیس) کی ہسٹری آف گکھڑ کے مطابق اپنے بیٹے دولو دلاور خان کی جوانی تک تمام معاملات رانی منگو نے بخوبی سنبھالے۔

رانی کی وجہ شہرت اس کے رفاہی کام ہیں۔ اس نے ”پکا بن” تعمیر کروایا۔ دو پہاڑیوں کے درمیان جاری نالے پر اس کے آثار نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سر جلال خان میں مسجد کا قیام، قلعہ تغلو (رام کوٹ) کی تزئین کرائی۔ لیکن تاریخِ ستیاں کی سینہ بہ سینہ روایات رانی منگو کے حق میں نہیں۔ طویل روایت کا لبِ لباب یہ ہے کہ ستی سردار ہیبت خان کو عورت کی حکمرانی کے خلاف مسلسل حقارت آمیز رویہ اختیار کرنے کی پاداش میں قلعہ پھروالہ کی دیوار میں چنوا دیا۔

3 رجب 1087 ہجری دھان گلی کی تاریخ کا یادگار دن تھا۔ رانی منگو کی بیٹی کی شادی اورنگ زیب عالم گیر کے بیٹے شہزادہ محمد اکبر کے ساتھ ہوئی۔ اورنگ زیب کے بعد شہزادہ بہادر شاہ اور اعظم شاہ میں جانشینی کی جنگ میں گکھڑوں نے اعظم شاہ کا ساتھ دیا جب کہ فتح بہادر شاہ کی ہوئی۔ اس لیے دانگلی کی منصب داری ختم کر دی گئی۔

احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیتے ہوئے سلطان مقرب خان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مقرب خان کے دو چھوٹے بیٹے دانگلی کی زمینوں کی تقسیم پر جھگڑ رہے تھے کہ سردار گجر سنگھ بھنگی نے دان گلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ الفنسٹن نے کنگڈم آف کابل میں واپسی کا ایک منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ منکیالا سے چالیس مربع میل کے درمیان گکھڑوں کی تباہ حال بستیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔میں شراب اور بھنگ کے ان مٹکوں کی ٹھیکریاں چننا چاہتا تھا جنہیں سکھ جشنِ فتح میں ڈکار گئے تھے۔ لیکن مکئی کے کچے ٹانڈوں اور بھنگ کے برگِ سبز نے زمین کو پوری طرح ڈھانپا ہوا تھا۔

گکھڑ تاریخ پیکار سےعبارت ہے۔ سر طامس رَو کے ہم سفر ایڈورڈ ٹیری نے ”ایسٹ انڈیز کا سفر” میں سندھ اور جہلم دو آبہ میں پھیلے پوٹھوہار میں دانگلی کو مغلوں کے افضل شمالی تابع فرماں گکھڑوں کے دو مرکزی مقامات میں سے ایک لکھا ہے۔ چونکہ مغلوں کا دائرہ عمل کابل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس لیے گکھڑ سلاطین کی قبریں کابل، وادیء تیراہ، بالا بنگش اور مختلف جگہوں پر ہیں۔ دانگلی میں موجود نمایاں قبروں میں سلطان فیروز خان، سلطان دولو مراد خان کی قبریں شامل ہے۔ سلطان پیلو خان اور ان کے بیٹے سلطان ہاتھی خان کے مزارات بلاکھڑ میں ہیں۔

پانیوں، پہاڑیوں اور کھائیوں میں بکھرا دان گلی کبھی ہندوستان کے نقشے میں موتی کی طرح چمکتا تھا۔وقت کا وحشی جہلم دان گلی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے صدا کر گیا ہے۔ کشادہ دیواریں، محرابی در و بام، بے پناہ وسعتیں سب جھاڑ جھنکار کی زد میں ہیں۔ شکستہ سلطانی طاقچوں میں چراغوں کے بجائے حسرتیں لو دے رہی ہیں۔نہ اس پر آج تک کوئی تحقیقی کام ہوا ہے۔ نہ کوئی کام کا آرٹیکل لکھا گیا ہے۔ اس کو آرکیالوجیکل سائٹس میں بھی شمار نہیں کیا جاتا۔ البتہ 2009 میں ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر محمد اشرف کی سربراہی میں انسٹیٹیوٹ آف ایشین سولائزیشنز، قائد اعظم یونیورسٹی کی سروے ٹیم نے اس فورٹریس کے بارے میں لکھا کہ اس کا رقبہ 140*123 میٹر ہے جب کہ اس کی دیواروں کی اونچائی 25 میٹر ہے جوچھوٹی پختہ اینٹوں اور چونے کے گچ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی دیواریں محراب نما اور نیم دائروی محرابوں کی شکل میں ہیں۔ جن میں سے دس شمال میں اور آٹھ جنوب میں ہیں۔ یہاں سے پیندے والے برتنوں کی ٹھیکریاں اور چکی کے پاٹ ملے ہیں۔

میں جموں کے راجہ کے محل کے ان تراشیدہ پتھروں کی تلاش میں تھا جو فتح کی نشانی کے طور یہاں لائے گئے تھے اور جموں کی فتح کا ایک یادگاری چبوترہ بنایا گیا تھا۔ لیکن سب ڈھیر ہو گیا۔ اس ملبے کو معمولی کوشش سے ایک یادگار میں بدلا جا سکتا ہے لیکن اس کی توفیق کے لیے کسی یومِ سلطان سارنگ خان پر اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا ہو گ