خطہ پوٹھوار یار پر گکھڑوں نے تقریباً ساڑھے سات سو سال بلا شرکت غیرے حکومت کی لیکن آپس کی ناتفاقیوں اور اقتدار کی ہوس کے نتیجے میں بالآخر سکھوں کے ہاتھوں گکھڑ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ سکھ دور حکومت گکھڑوں کے لئے سب سے مشکل وقت تھا کیونکہ سکھ پوٹھوہار میں کسی کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے تو وہ صرف گکھڑ تھے۔ اس لئے انھوں نے گکھڑوی پر ظلم کی انتہا کر دی اور گکھڑ سرداروں اور شہزادوں کے سر کی قیمت مقرر کردی۔ گکھڑوں نے مختلف علاقوں میں ہجرت کر کے جان بچائی۔
انگریزوں کی آمد اور خطہ پوٹھوار پر سکھوں حکومت کے خاتمے کے بعد گکھڑ قبیلے کے خطرات کسی حد تک کم ہوئے اور وہ گمنامی سے باہر نکلے لیکن اب پوٹھوہار پر حکومت تو خواب و خیال ہی تھی کیونکہ گکھڑوی کی قوت بکھر چکی تھی۔ اس لئے ہمارے اسلاف نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے سیاسی ۔ عسکری، تعلیمی اور دوسرے میدانوں میں انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بھی اپنی انتھک محنت سے کامیابیاں حاصل کر کے اپنے قبیلے کا نام روشن رکھا۔
ان ہی میں سے ایک ہمارے لئے انتہائی قابل احترام اور باعث فخر شخصیت قلعہ پھروالہ کے حکمرانوں کی اولاد میں سے جناب راجہ حسن اختر کی ھے
راجہ اختر صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ قائدانہ صلاحیت سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب، شاعر، بیوروکریٹ، قانون دان اور ایک اچھے سیاست دان بھی تھے راجہ صاحب کی ولادت 21 دسمبر 1901 کہوٹہ میں ہوئی آپ کا نام پہلے اپنے مرحوم بڑے بھائی کے نام پر کرم علی خان رکھا گیا تھا لیکن مولانا حالی پانی پتی جو کہ آپ کے والد صاحب کے قریبی احباب میں سے تھے آپ کا نام تبدیل کر کے حسن اختر رکھ دیا۔ آپ کے والد بزرگوار راجہ کرم داد عرف سلطان بابا ایک درویش منش انسان تھے
راجہ حسن اختر صاحب نے گورڈن کالج سے بی اے کیا اور پنجاب میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ڈیوٹی جوائن کی اور آپ 1950 تک پنجاب کے مختلف شہروں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اپنی فرائض سر انجام دئیے۔ دوران سروس وہ علامہ اقبال مرحوم کے بہت قریب ہو گئے اور بروز جمعرات 21 اپریل 1938 میں علامہ اقبال کی وفات کے وقت ان کے پاس موجود تھے
اگرچہ راجہ صاحب تحریک پاکستان کے وقت برٹش حکومت کی سروس میں تھے لیکن آپ نے اس تحریک میں قائد اعظم کو مختلف شہروں کی نہ صرف معلومات فراہم کی بلکہ مختلف اخبارات میں فرضی ناموں جیسے ” حسن آفاقی” بوریا نشین اور کوہستانی کے نام سے اردو اور انگلش میں مضامین لکھتے رہے آپ کو تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لینے اور آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے پاکستان بننے کے بعد ” تحریک پاکستان گولڈ میڈل” سے نوازا گیا۔ انھوں نے مہاجرین کی آباد کاری میں بطور بیوروکریٹ مثبت اور اہم کردار ادا کیا۔
1950 میں آپ نے لاء کی تعلیم مکمل کی اور آپ ایک کامیاب قانون دان بنے۔ راجہ صاحب مغربی پاکستان کے حلقہ این اے 36 جو اسوقت گوجر خان، کہوٹہ اور مری کی تحصیلوں پر مشتمل تھا سے ممبر اسمبلی بنے۔ سننے میں آیا کہ آپ نے ایک جگہ انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس بھرے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی یہ کہہ دے کہ وہ راجہ حسن اختر کے پاس کام سے گیا تھا اور راجہ صاحب نے میرا کام نہیں کیا تو میں ابھی الیکشن سے دستبردار ہو جاؤں گا تو پورے مجمح میں سے کوئی شخص نہیں بولا۔ آپ نہ صرف اپنی پرادری بلکہ دوسری برادریوں میں یکساں مقبول تھے اور آج ہمارے الیکشن لڑنے والے حضرات اپنی برادری سے ہی گلہ کرتے رہتے ہیں کہ برادری تعاون نہیں کرتی۔
آپ نے اپنے علاقے میں سڑکیں، علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولیات مہیا کئیں راجہ صاحب انتہائی غریب پرور اور انسانیت دوست تھے آپ اپنے علاقے میں انتہائی دلعزیز تھے اور علاقے کے لوگ آپ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے
آپ کے اوپر ایک کتاب “حسن آفاقی” کے نام سے لکھی گئی۔ اس کے علاؤہ ایم فل کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں 300 صفحات پر مشتمل تھیسز ” راجہ حسن اختر” اور ” اقبال شناس” طالب بخآری نے لکھے۔ راجہ صاحب کو “اختر ملت” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ھے۔
یہ عظیم شخصیت بروز منگل 15 اکتوبر 1964 کو اس جہان فانی سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
راجہ حسن اختر مرحوم کے چار صاحب زادے ہیں
- کرنل ریٹائرڈ راجہ سلطان ظہور اختر
- میجرمسعود اختر شہید
- راجہ محمود اختر کیانی
- راجہ جلیل حسن اختر
راجہ فخر الاسلام
گکھڑ فیملی گروپ 2022