جہلم میں قلعہ روہتاس ایشیاء کے سب سے بڑے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے۔ یہ قلعہ پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سر زمین کے وسط میں شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا جو کہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ قلعہ کے ایک طرف نالہ کسی، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنہ جنگل ھے۔شیر سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے بنایا تھا کیونکہ گکھڑ مغلوں کے حلیف تھے اور وہ ان کو بروقت امداد اور کمک مہیا کرتے تھے جو شیر شاہ سوری کو کسی طرح گوارا نہیں تھا۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد مکمل ہوا لیکن جب یہ مکمل ہونے کے قریب تھا تو شیر شاہ سوری نے کہا تھا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ھے۔ قلعے کے عین سامنے جرنیلی سڑک گزرتی تھی جو اب تقریباً پانچ کلومیٹر دور جا چکی ھے۔
قلعے کی تعمیر عام اینٹوں سے ہٹ کر دیا ہیکل پتھروں سے کی گئی ھے اور جنھیں بلندیوں پر نسب دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ھے۔
ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بطور معاوضہ دیا گیا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر اس زمانے کے34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے ۔جس کا تخمینہ آج کے اربوں روپے بنتے ہیں۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔ یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے ، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔
قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں ۔ ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھاجبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے دور شیر شاہی میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتے ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔
قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شاہ اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی ، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا ۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خمیوں میں رہا کرتے تھے ۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا
لاکھوں لوگ اس قلعے کو دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے آتے ہیں ۔ قلعہ کے قریب واقع نالہ گھان پر پل تعمیر کر دیا گیا ہے۔ اس پل کی تعمیر سے پہلے نالہ گھان میں سے گزرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں آمدورفت منقطع ہوجاتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دروان استعمال کی جانے والی نیلام شدہ گاڑیاں قلعہ روہتاس کے لیے بہ طور پبلک ٹرانسپورٹ چلائی جاتی ہیں۔ قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے ۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سکنھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تاریخ میں گھکڑوں کی وحشت کا ذکر فرشتہ کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی کیا ہے۔سوہاوہ کے قریب غوری کی شہادت اور دینہ کے قریب قلعہ روہتاس کی موجودگی ان کی شرپسندی کی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ حالانکہ شہاب الدین غوری اور شیر شاہ سوری کی مخالفت غزنوی اور مغل خاندان کے ساتھ دیرینہ اتحاد کی وجہ سے تھی۔شجاعت کے ساتھ ساتھ وفا ایک ایسی صفت ہے جو غیر معمولی لوگوں میں ہوتی ہے۔۔۔ہاتھی خان نے بابر کے طرف جو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اس کا پاس گکھڑوں نے مشکل ترین حالات میں بھی کیا۔۔ہمایوں کا مشکل ترین وقت میں ساتھ دیا۔۔۔شیر شاہ سوری کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔۔۔ اسی قلعے (پھروالہ) میں ہمایوں کے اقتدار کے دوبارہ حصول کی پلاننگ ہوئی۔۔۔جب شیر شاہ سوری نے گکھڑوں کو اطاعت کی دعوت دی تو گکھڑوں نے جواباً تیر اور ببر شیر کے دو بچے بجھوائے۔جنہیں دیکھ کر شیشر ساہ سوری نے کہا کہ میں گکھڑوں کے سینے میں ایسی کیل گاڑوں گا کہ جسے قیامت تک کوئی نہیں نکال سکے گا۔ اور اس نے گکھڑوں کی شدید مخالفت کے باوجود قلعہ روہتاس کی تعمیر کے لئے خزانے کا منہ کھول دیا۔ قلعے میں استعمال ہونے والے پتھر ایک اشرفی (سونے کا سکہ) فی پتھر کے حساب سے خریدے گئے۔
یہ قلعہ جہلم سے 16 کلو میٹر اور دینہ سے 7 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے یہ اپنے اردگرد کے علاقے سے 300 فٹ بلندی پر اور سطح سمندر سے 2660 فٹ بلندی پر واقع ہے۔
شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام شاہ شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ اسلام شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے۔
راجہ فخر الاسلام
گکھڑ فیملی گروپ