پوٹھوہارماضی حال کے آئینےمیں

بعض لوگ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان سڑک اعظم کے دونوں طرف واقع سارے وعلاقے کو پوٹھوہار قرار دیتے ہیں لیکن تاریغ کی کتابوں سے پوٹھوہار کی اس حدبندی کی تصدیق نہیں ہوتی- ان کتابوں کے مطابق شمال میں راولپنڈی کے قریبی مقام مارگلہ کے پہاڑی سلسلہ سے لے کر جنوب ضلع جہلم کے قصبہ سوہاوہ کی پہاڑیوں تک کا علاقہ پوٹھوہار ہے-ترک بابری میں پوٹھوہار کی حدود کے لئے ُُ ازمارگلہ تا دھمک“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں یہ ُُ دھمک “ سوہاوہ ضلع جہلم کے مشرق میں پہاڑیوں کے دامن میں واقع وہی مقام ہے جہاں مشہور مسلمان فاتح شہاب الدین غوری کو شہید کر دیا گیا تھا اور جہاں شہاب الدین غوری کے ساتھی شہیدوں کی قبریں اب بھی موجود ہے-

دراصل پوٹھوہار کا علاقہ شمال میں مارگلہ کے پہاڑی سلسلہ سے شروع ہو کر تحصیل مری اور کہوٹہ کی پہاڑیوں اور دریائے جہلم کے ساتھ تحصیل جہلم کے مقامات دھمک، لڑی اور پنچور تک چلاگیا ہے- جنوب میں اس کی حدود ترکی اور سوہاوہ کی پہاڑیوں تک ہیں- مغرب میں اس کی حدود دھنی اور گھبیی اور شمال جنوب میں چحیچھ کے علاقے سے ملی ہوئی ہے- یہ علاقہ تاریخ کے ابتدائی ادوار سے ہی شمال مغرب سے آنے والے تجارتی قافلوں اور حملہ آور فوجوں کی گزر گاہ رہا ہے اور اس علاقے نے نشیب وفراز کے کئی دور دیکھے ہیں-

تاریخ کی کتاب میں اس علاقے کا نام ُُ پوٹھوہار“ کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں لیکن ان میں زیادہ تر دروازے کار معلوم ہوتی ہیں- ہیر حال ان میں سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے اور غالباََ یہی درست بھی ہے کہ یہ سارا علاقہ سطح مرتفع ہے اور اس علاقے میں پھیلی ہوئی اونچی نیچی پیاڑیوں اور چٹانوں کی حالت اپنی بناوٹ اور مظبوطی کے لحاظ سے جانوروں کی پیٹھ کی سی ہے اور اس علاقہ کی زبان میں ُُپیٹھ“ کو ُُ پٹھ“ کہتے ہیں اور ُُآر“ کے معنی ہیں ُُمانند“ – مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ کرہ عرض کے اس حصہ میں پیٹھ کی طرح ابھرا ہواہے یعنی ُُ پٹھ آر“ ہے یہی لفظ کثرت استعمال سے پٹھوار ،پوٹھواریا ُپوٹھوہار بن گیاہے –
ویسے تو علاقہ پوٹھورہار کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی برصغیرپاک و ہند بلکہ خود کرہ ارض کی- لیکن اسں علاقے کا باقاعدہ علم یونانی فاتح سکنداعظم کے دور سے ہوتا ہے- تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ جسں زمانے میں سکنداعظم ہندوستان پر حملہ آور ہوا اس وقت اس علاقہ پر راجہ امھبی کی حکومت تھی جو دریائے سند سے دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھی- اس دارالحکومت کا نام ٹیکسلا تھا- بیان کیا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کا مشہور چیہتا گھوڑا اس علاقے میں آ کر مر گیا اور سکندر اعظم نے اس گھوڑے کی یادگار کےطور پر یہاں ایک عظیم الشان سٹوپہ بنوایا- یہ سٹوپہ مانکیالہ کے قریب اب تک موجود ہے اور شاہراہ اعظم کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے پندرھویں میل پر سڑک کے مشرق کی طرف دکھائی دیتا ہے مگراس سٹوپہ کی تعمیر کے متعبق بعضں دوسرے قصے بھی مشہور ہیں-

سکندر اعظم کے حملہ کی وجہ یہ علاقہ یونانی اور ایرانی تہزیب و تمدن سے متاثر ہوامگر اس کے کچھ عرصہ بعد اس علاقے کو چندرگیت موریہ نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا – اس کے دور میں اس علاقے کو خاصی ترقی نصیب ہوئی یہاں تک کے اس علاقے کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہاں چاندی اور سونے کے سکے جاری ہوئے –
چندر گیت کے بعد مشہور حکمران اشوک کے دعر میں بھی یہ یہ علاقہ اس مملکت میں شامل رہا- یہ زمانہ بدھ مذہب اختیار کر لیا تھا اس لئے اس زمانے میں یہاں بدھ مذہب پھیل گیا اور یہاں کئی بدھ عبادت خانیں تعمیر کئے گئے – اس کے علاوہ علاقے میں کئی سٹوپہ بنوائے گئے جن میں سے کئی ایک کے آثار اب تک موجود ہیں- اس دور میں ٹیکسلا کے قریب سے جو آثار برامد ہوئے ہیں وہ اس زمانے کی یادگاریں ہیں اور ان کو دیکھ کر باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں علاقہ پوٹھوہار کو کتنی ترقی نصیب ہوئی تھی – ٹیکسلا کے عجائب گھر میں اس زمانے کے جو نوادرات رکھے ہیں ان سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے- اسی دور میں اس علاقہ میں پتھروں سے مجسمہ سازی کے فن کو عروج حاصل ہوا چنانچہ اس دور کے بنائے ہوئے مجسمےٹیکسلا کے عجائب گھر میں بھی موجود ہیں اور دنیاکے دوسرے حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں-

اشوک کے جانشینوں کے بعد علاقہ پوٹھوہار پر کئی نشیب وفراز آئے چنانچہ کبھی یہاں ایرانی تہزیب نے اپنے اثرات چھوڑے اور کبھی کشان خاندان نے یہاں اپنا اثرور سوخ بڑھایا- ان کے بعد برصغیر پر سفید ہنوں کا طوفان آیا- جسں سے اس علاقے کی کوئی چیز سلامت نہ رہی اور یہ علاقہ کئی صدیوں تک سنبھل نہ سکا- اس علاقہ کے اس دور کے حالات پر تاریکی کا پردہ پڑاہواہے-

گیارویں صدی وعیسوی کے اوائل میں برصغیر پاک و ہند پر شمال مغرب کی طرف سے مسلمان فاتحین کی آمد شروع ہوئی- ان فاتحین میں سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی کا نام آتا ہےاور اسی دور کی تاریخوں میں اس علاقہ کے اصل باشندوں – گھڑوں کا تزکرہ ملتا ہےجنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا جب سلطان محمود غزنوی نے دریائے سندھ عبور کیا تو اسے سب سے پہلے گکھڑوں ہی کا سامنا ہوا- سلطان نے ان سے عہدو پیمان کر کے لاہور اور دہلی کا رخ کیا جو اس کی اصل منزل تھے اور پوٹھوہار کا علاقہ اس وقت کے مقامی حکمران گکھڑخان کے حوالے کر دیا جسں کے نام پر بعد میں قبیلہ مشہور ہوا- سلطان محمود غزنوی کے بعد محمد غوری اور شہاب الدین غوری برصغیر میں آئے- علاقہ پر پوٹھوہار کے گکھڑوں نے محمد غوری کا تو مقابلہ کیا لیکن شہاب الدین کے حملے کے دوران وہ مسلمان ہوگئےاور اس کے بعد اپنے زوال تک دہلی کے حکمران کے حلیف اور اس علاقہ کی حکمران رہے- وہ دہلی کے حکمرانوں کے قابل اعتماد حلیف سمجھے جاتے تھے ان کا دارالحکومت تحصیل کہوٹہ کا مقام پھروالہ تھا- یہ وہی پھروالہ ہے جہاں بعد میں ہمایوں نے اپنے بھائی کامران کو بے وفائی کی سزا دی تھی- یہاں گکھڑوں کے عہدکی یادگار قلعہ اب بھی موجود ہے جا مغل طرزِ تعمیر کی نشاندہی کرتا ہے-

جسں زمانے میں مغل بادشاہ ہمایوں کو بنگال کے گورنر شیر خان کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور شیر شاہ سوری کے نام سے اپنا سکہ جاری کیا- اس زمانے کی تاریخ میں پوٹھوہار اور یہاں کے جنگ آزماباشندوں کی داستان ملتی ہے- شیر شاہ سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں ایران چلا گیا تھا اور شیرشاہ نے اپنی وسیع و عریض مملکت کو شمال مغرب کی طرف سے کسی متوقع حملے سے محفوظ رکھنے کے لئے دریائے سندھ تک اپنا اثر بڑھانا چایتا تھا اس نے اپنے وقت کے گکھڑحکمران سلطان سارنگ کو پیغام بھیجا کہ اب وہ مغلوں کے بجائے اس سے دوستی کے عہدو پیمان کر لیں مگر گکھڑ حکمران نے اسےاپنے عہدے کے خلاف سمجھا اور شیر شاہ کی پیشکسں کو قبول نہ کیا جسں کے نتیجہ میں شیرشاہ کی فوجیں پوٹھوہار کے علاقہ میں داخل ہو گئیں اور ابتدائی معمولی جھڑپوں کے بعد راولپینڈی سے لاہور کی جانب گیارہ میل دور روات کے مقام پر شیر شاہ کی فوجوں اور گکھڑوں کے لشکر کی باقاعدہ جنگ ہوئی- اس جنگ میں گکھڑوں کو شکست ہوئیاور سلطان سارنگ دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گیا لیکن گکھڑوں نے اس علاقہ میں شیرشاہ کی فوجوں کو آرام نا لینے دیا- ادھر بنگال میں شورش بپاہو جانے کی وجہ سے خد شیر شاہ کو وہاں جانا پڑا اور گکھڑوں نے اس کی فوج کو پوٹھوہار سے نکل جانے پر مجبور کر دیا چنانچہ انہوں نے پوٹھوہار سے باہر رہتاس ضلع جہلم کے مقام پر مدافعفتی قلعہ تعمیر کیا جسں کے آثار اب تک وہان اپنے بنانے والوں کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں-

کچھ عرصہ بعد مغل بادشاہ ہمایوں ن ایران سے فوجی امداد لے کر واپس آنے کی تیاری کی- کہا جاتا ہے کہ پوٹھوہار کے گکھڑوں نے بھی ہمایوں کو واپس آنے کی دعوت دی اور اس کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا اور پھر جب ہمایوں واپس آیا تو گکھڑوں نے اس کی مدد بھی کی اور ہزاروں کی تعداد میں اس کی فوج میں شامل ہو کر دہلی پہنچے- ہمایوں کی کامیابی کے بعد گکھڑوں کی وفاداری کے سبب اس علاقے کا نظم و نسق بھی کمزور ہو گیا اور پھر سکھوں کی سازش نے اس علاقے میں گکھڑوں کے اقتدار اور وقار کو سخت نقصان پہنچایا آنکہ گزشہ صدی میں برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں کی غیر ملکی حکومت قائم ہو گئی اور ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ پوٹھوہار کا علاقہ بھی انگریزوں کی مملکت میں شامل ہو گیا-

انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند پر نوے سال حکومت کی- اس عرصہ میں انہوں نے علاقہ پوٹھوہار کے جفاکش اور بہادر لوگوں کو اپنی وسیع عریض مملکت کی حفاظت اور طرقی کے لئے استعمال کیا چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں مشہور انگریزی فوجوں کی شہرت میں اس علاقہ کی بہادر فوجوں کی شجاعت کا بڑا ہاتھ تھا- پھر جب برصغیر میں غیر ملکی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی لہر اٹھی تو اس علاقے کے لوگوں نے بھی، جن کی اکثریت مسلمان تھی، برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کے سلسلے میں اپنا قومی فرض ادا کیا اور ١٩٤٧ ء میں صرف برصغیر غیر ملکی تسلط سے آزاد ہو گیا بلکہ حضرت قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کا ایک آزاد خود مختار ملک–پاکستان بھی عالم وجود میں آ گیا- جو خدا کے فضل سے اب ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث عزت و افتخار اور اقوام عالم کا ایک معزز رکن ہے-

١٩٥٨ ء میں پاکستان میں صدر جنرل محمد ایوب خان مرحوم کی حکومت قائم ہوئی اور اسی حکومت کے عہد میں ایک تاریخی فیصلہ ہوا جس کی رو سے مملکت پاکستان کا دارالحکومت سر زمین پوٹھوہار میں تبدیل کر دیا گیا- اب اس علاقہ کی وہ اہمیت ہو گئی جو اسے تاریخ میں پہلے کبھی حاصل ن ہوئی تھی- اب مملکت پاکستان کا دارالحکومت — اسلام آباد اسی علاقہ پوٹھوہار میں ہے اور اسلام آباد — دنیا کا ایک جدید اور خوبصورت شہر ، عالمی اور خاص کر اسلامی دنیا کی سیاسیات میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور اس طرح علاقہ پوٹھوہار کو ایک نئی زندگی حاصل ہوئی ہے-

اپنا تبصرہ بھیجیں